شکوہ جواب شکوہ خضر راہ طلوع اسلام نظموں کا جائزہ

 شکوہ جواب شکوہ خضر راہ طلوع اسلام نظموں کا جائزہ

علامہ محمد اقبال اردو ادب کے سب سے اہم اور مشہور شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں، جنہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کی فکری اور روحانی بیداری کی ایک نئی لہر پیدا کی۔ ان کی تخلیقات میں "شکوہ"، "جواب شکوہ"، "خضرِ راہ" اور "طلوعِ اسلام" جیسی نظمیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ان نظموں کے ذریعے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ نے نہ صرف مسلمانوں کی حالت زار کو موضوع بنایا بلکہ ان کے اندر امید اور حرکت کا پیغام بھی دیا۔ ان نظموں کی سنِ اشاعت اور ان کے بنیادی موضوعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

شکوہ جواب شکوہ خضر راہ طلوع اسلام نظموں کا جائزہ

شکوہ

نظم"شکوہ" علامہ اقبال کی ایک عظیم تخلیق ہے جو پہلی بار انیس سو گیارہ عیسوی میں شائع ہوئی۔ یہ نظم مسلمانوں کی شکایتوں کو خدا کے حضور پیش کرنے کا انداز ہے۔ اقبال نے اس نظم میں مسلمانوں کی تاریخی عظمت، ان کی قربانیوں اور اللہ کے ساتھ ان کے تعلقات کا ذکر کیا ہے۔ اقبال نے نہایت دلکش انداز میں یہ سوال اٹھایا کہ جب مسلمان اللہ کے دین کے لیے اتنی قربانیاں دے چکے ہیں، تو پھر ان پر زوال کیوں آیا؟

نظم"شکوہ" میں اقبال نے مسلمانوں کی بے عملی اور دین سے دوری کو ان کے زوال کا اصل سبب قرار دیا، لیکن اس کو اس انداز میں پیش کیا کہ یہ شکایت زیادہ اور خوداحتسابی کم محسوس ہو۔ اقبال کا پیغام واضح تھا: اگر مسلمان اپنی عظمت کو دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنے عمل اور ایمان کی طرف واپس آنا ہوگا۔

جواب شکوہ

نظم"جواب شکوہ" انیسویں تیرھویں عیسوی میں شائع ہوئی اور یہ "شکوہ" کا جواب ہے۔ اس نظم میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو جواب دیا گیا ہے۔ اقبال نے اس نظم میں خدا کی زبان میں یہ پیغام دیا کہ مسلمانوں کے زوال کی وجہ ان کی اپنی کوتاہیاں ہیں۔

اللہ تعالیٰ کے کلام کے طور پر اقبال نے واضح کیا کہ جب مسلمان اللہ کے راستے پر تھے تو انہیں دنیا میں غلبہ حاصل تھا، لیکن جب انہوں نے دین سے رخ موڑا اور دنیاوی لذتوں میں پڑ گئے، تو زوال ان کا مقدر بن گیا۔ اس نظم میں اقبال کا زور اس بات پر تھا کہ اگر مسلمان دوبارہ عزت اور کامیابی چاہتے ہیں، تو انہیں اپنے ایمان کو مضبوط اور اپنی زندگی کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔

خضرِ راہ

نظم"خضرِ راہ" انیسویں بائیس عیسوی میں اقبال کی کتاب "بانگِ درا" میں شامل ہوئی اور اس نظم میں اقبال نے مسلمانوں کے لیے ایک رہنما کے تصور کو پیش کیا ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام کی شخصیت کو علامتی طور پر استعمال کرتے ہوئے اقبال نے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ یہ نظم مسلمانوں کے لیے ایک فکری اور عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

اقبال نے اس نظم میں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے مختلف مسائل پر بات کی، جیسے کہ علم، محبت، خودی، اور قوم پرستی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو اپنے اندر کے جوہر کو پہچاننا ہوگا اور اپنی زندگی کو مقصدیت کے ساتھ گزارنا ہوگا۔ "خضرِ راہ" ایک طرح کا فکری سفر ہے جو مسلمانوں کو ان کے ماضی اور حال کے بارے میں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔

طلوعِ اسلام

نظم"طلوعِ اسلام" اقبال کی ایک اور مشہور نظم ہے جو انیسویں چھتیس عیسوی میں شائع ہوئی۔ یہ نظم مسلمانوں کے زوال کے بعد ان کی دوبارہ اٹھان کی امید پر مبنی ہے۔ اقبال نے اس نظم میں مسلمانوں کو ایک روشن مستقبل کی بشارت دی اور انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔

"طلوعِ اسلام" میں اقبال نے مشرق کے مسلمانوں کے لیے ایک نئی صبح کا تصور پیش کیا اور اس بات پر زور دیا کہ اسلام ایک زندہ دین ہے جو وقت کی بدلتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اقبال کا پیغام واضح تھا کہ مسلمانوں کو اپنی خودی کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے اندر ایک نئی زندگی پیدا کرنی ہوگی۔

ان نظموں کی اہمیت

اقبال کی یہ نظمیں نہ صرف ان کے وقت میں بلکہ آج بھی مسلمانوں کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔ انہوں نے ان نظموں کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور انہیں یہ احساس دلایا کہ ان کی عظمت کا راز ان کے اپنے عمل میں چھپا ہے۔

اقبال کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ محض الفاظ کا کھیل نہیں بلکہ ایک فکر اور عمل کا پیغام ہے۔ ان کی نظمیں ہمیں بتاتی ہیں کہ ہم اپنے ماضی سے سبق سیکھیں، حال کو بہتر کریں، اور ایک روشن مستقبل کی تعمیر کریں۔ اقبال کی شاعری آج بھی مسلمانوں کو ان کے مقصدِ حیات کی یاد دلاتی ہے اور ان کے اندر ایک نئی توانائی پیدا کرتی ہے۔

جائزہ شکوہ جواب شکوہ 

علامہ اقبال کی نظمیں "شکوہ"، "جواب شکوہ"، "خضرِ راہ" اور "طلوعِ اسلام" نہ صرف اردو ادب کا عظیم سرمایہ ہیں بلکہ مسلمانوں کے لیے ایک رہنمائی کا ذریعہ بھی ہیں۔ یہ نظمیں ہمیں بتاتی ہیں کہ اگر ہم اپنی اصل پہچان کو سمجھیں اور اپنے عمل کو درست کریں تو ہم دوبارہ وہ مقام حاصل کر سکتے ہیں جو کبھی ہمارا تھا۔ اقبال کے پیغامات آج بھی زندہ ہیں اور ہمیں ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو بہتر بنا سکیں۔

مذید اشاعت ملاحظہ فرمائیں

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !