افسانہ نیا قانون از سعادت حسن منٹو
افسانہ کا موضوع
1935 ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے یہ افسانہ(کہانی) لکھا گیا ہے، جس طرح منگو کوچوان کو بے وقوف بنایا گیا اسی طرح ہندوستانیوں کو بھی بے وقوف بنا کر یہ بتایا گیا کہ آپ کو قول و فعل کی آزادی مل جائے گی مگر پھر حالات اس کے برعکس تھے. اور اس برعکس حالات کی عکاسی افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اس افسانے میں بہترین انداز میں کی ہے۔
افسانہ کا پس منظر
اس کے افسانے کے کردار منگو کوچوان کو افسانہ نیا قانون (انڈیا ایکٹ) کا معلوم ہوتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ اس نئے قانون سے ہر چیز بدل جائے گی لہٰذا وہ یکم اپریل کی صبح کو خوشی و انبساط کے ساتھ گھر سے نکلتا ہے کہ اب نیا قانون ہے ہر چیز بدل گئی ہے لیکن وہ بہت حیران و پریشان ہوتا ہے کہ سب کچھ جوں کا توں ہی ہوتا ہے اسی اثناء میں وہ
ایک انگریز کو گھونسے برسا دیتا ہے پولیس والے منگو کوچوان کو پکڑ لیتے ہیں اور اسے تھانے لے جاتے ہیں کمرے میں داخل ہوتے ہوئے منگو کوچوان نیا قانون اور افسانہ نیا قانون چلاتا رہتا ہے مگر اس کی کوئی نہیں سنتا۔ پولس والا منگو کوچوان کو حوالات میں بند کرتے ہوئے کہتا ہے کہ نیا قانون ،نیا قانون، کیا بک رہے ہو ؟قانون وہی ہے پرانا ہے
نیا قانون کا فنی و فکری جائزہ
اس افسانے میں آزادی کا شعور مختلف رویوں کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔اس افسانے کا مرکزی کردار منگو کوچوان ہے جو نا خواندہ ہے مگر کوچوان برادری اسے اپنا استاد تسلیم کرتی ہیں ۔ وہ اپنی سواریوں سے باتیں سن سنا کر اپنی ذہنی استعداد کے مطابق غلط معانی اخذ کر لیتا ہے۔
لیکن بنیادی طور پر اس کے خیالات میں حقیقت کی دنق موجود ہوتی ہے ۔ کسی وجہ سے اس کے تانگے میں بیٹھنے والے گورے اسے دھونس دھاندلی کے ساتھ تھپڑ مکے سے بھی نوازتے ہیں ۔چناں چہ اسے انگریزوں سے سخت نفرت ہوجاتی ہے ۔وہ اس دن کا انتظار کرتا ہے ۔
جب آزادی ملے گی ۔تو وہ اس گورے کے منہ پر زبردست مکہ مارے گا ۔جب منگو کو اپنی سواریوں سے پتہ چلتا ہے کہ یکم اپریل کو " افسانہ نیا قانون" نافذ ہوگا ۔جس سے ملکی نظام میں ہمہ گیر تبدیلیاں رونما ہوں گی۔
اس سے وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ اس قانون کے نفاذ پر انگریزی حکومت کا خاتمہ ہو جائے گا ۔افسانہ نیا قانون آنے پر غریبوں کو سود خوروں سے نجات مل جائے گی۔ اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمت تمام ہندوستانیوں کو برابر کے حقوق ملیں گے۔ اس کا بہترین کردار منگو اس دن کے انتظار کرنے لگتا ہے اور پھر وہ دن جاتا ہے ۔منگو جب اس گورے کے پاس پہنچتا ہے تو بدلہ لینے کی غرض سے اپنی پوری طاقت سے ایک مُکہ گورے کے منہ پر کھینچ مارتا ہے۔
اور شور مچ جاتا ہے ۔پولیس اسے پکڑ کر حوالات میں بند کر دیتی ہے۔ وہ چلاتا رہتا ہے افسانہ نیا قانون ،افسانہ نیا قانون مگر تھانے دار ایس ایچ او کہتا ہے کیا بکواس کر رہے ہو قانون تو پرانا ہی ہے۔ یہاں ایک سادہ لوح ہندوستانی کے دو المیے پیدا ہوتے ہیں ایک یہ کہ کوئی ایسا قانون نافذ نہیں جس کے سبب وہ گوروں یعنی انگریزوں کے مُکے سے محفوظ رہ سکے۔
اور دوسرا یہ کہ وہ حوالات میں بند کر دیا گیا ۔
افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کا یہ افسانہ بھی ایک ایسا ہی آئینہ ہے تو اپنے دور کا آئینہ یہی نہیں بل کہ اس سے آج کے جدید دور میں ہمارے قانون میں پائی جانے والی سنگین برائیوں کی مکروہ شکل دکھانے کی کوشش بھی کی ہے ۔
افسانہ کا پلاٹ
اس افسانے افسانہ نیا قانون کا پلاٹ بہت عمدہ ہے ایک واقعہ کے بعد دوسرا واقعہ آتا ہے ۔اس کا پلاٹ ترتیب و تنظیم رکھتاہے ۔منٹو کے اس افسانے کے کردار منگو کے بے شمار پہلو ہیں اور ہر پہلو بڑا دل چسپ ہے یہ خوبی افسانے کے پلاٹ پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے ۔اور قاری اس افسانے کے وصف میں اپنے آپ کو کم کر بیٹھتا ہے ۔
بہترین کردار نگاری
افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے تمام کردار عملی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے سب کردار آنکھوں کے سامنے گھومتے پھرتے ہیں۔ کردار منگو کوچوان کا کردار معصومیت اور قومیت کا شاہ کار ہے منگو افسانے کا مرکزی کردار ہے۔
جو کہ پسماندہ اور ان پڑھ ہے مگر کوچوان برادری اسے اپنا استاد مانتی ہے وہ اپنی ذہنی استعداد کے مطابق باتوں کا مطلب نکالتا ہے ۔
اس کے دل میں وطن پرستی کے حوالے سے گہرے جزبات و احساسات ہیں وہ ہندوستانی قوم کے جذبات کی علامت بن کر ابھرتا ہے جو غلامی سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہے ۔وہ اپنی قوم کے لئے خوش حالی اور آزادی کے خواب دیکھتا ہے اس افسانے کو کرداری افسانہ بھی کہا جاتا ہے۔