اقبال اور اسلامی تمدن کی روح
اقبال اس خطبہ کی ابتداء ایک معروف صوفی ہستی حضرت شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے بہترین قول سے کرتے ہیں: ”حضرت محمد عربی صلعم فلک الافلاک پر پہنچے اور واپس آگئے۔ قسم اللہ پاک کی اگر میں وہاں پہنچ یا تا تو کبھی واپس نہ آتا۔
اس جملہ سے اقبال شعور نبوت اور شعور ولایت میں جو فرقی ادراک ہے اسے ثابت کرتے ہیں۔ بقول اقبال ایسے من میں جو لذت اور اطمینان صوفی کو حاصل ہوتا ہے وہ اس کیفیت سے علیحدہ ہو کر واپس آنا نہیں چاہتا۔ لیکن اگر وہ واپس آئے بھی جیسا کہ لازم ہے تو اس کا واپس آنا نوع انسانی کے لیے کسی خاص فائدے کا باعث نہیں بنتا۔
برعکس اس کے نبی کی واپسی تخلیقی ہوتی ہے۔ وہ جب زمانے کی رو میں ہوتا ہے تو عالم تاریخ میں انسانوں کے لیے اجتماعی طور پر ایک تمدنی انقلاب برپا کر کے نئی دنیا پیدا کر دیتا ہے۔ جہاں تک صوفی کا تعلق ہے اس کے لیے حقیقت مطلقہ سے اتحاد کا لمحہ آخری منزل ہے۔ مگر نبیوں کے لیے ایسی واردات کا مطلب ان کے اپنے اندر کچھ ایسی قوتوں کا یکدم بیدار ہونا ہے جو دنیا کوزیروز بر کر کے انسانی کیفیت میں تغیر کا سبب بنتی ہیں۔
انبیاء کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے روحانی تجربے کو عالمگیر قوت کی شکل عطا کر دیں۔ دوسرے لفظوں میں ان کی واپسی ایک طرح کا امتحان ہوتا ہے۔ ان کے مشاہدے کی اصل قدر و قیمت کا ۔ یعنی اپنے تخلیقی عمل سے انبیاء نہ صرف اپنے آپ کو جانچتے ہیں بلکہ حقائق کی دنیا کو بھی، جسے وہ باہر سے اثر انداز ہو کر ایک قطعی نئی شکل دے دیتے ہیں ۔
پس ان کی ذات ایک بے حس اور مردہ عالم میں داخل ہو کر اس میں نئی روح پھونچتی ہے۔ ان کی اپنی ہستی کی اہمیت ان پر واضح ہوتی ہے اور وہ تاریخ انسانی کو بھی اسے دیکھ سکنے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ انبیاء کے روحانی تجربات اور ان کی اہمیت ہم یوں بھی کر سکتے ہیں کہ ان کے زیر اثر کس طرز کے انسان پیدا ہوئے یا تہذیب و تمدن کی وہ کیسی دنیا تھی جوان کی دعوت سے ظہور میں آئی۔ پس اس خطبہ میں یہی امر اقبال کے پیش نظر ہے۔
علم و حکمت کے میدان میں جو خدمات عالم اسلام نے انجام دیں ان کی تفصیل یہاں بیان کرنا اقبال کا مقصد نہیں بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ ہم اپنی نگا ہیں خصوصی طور پر ان تصورات پر مرتکز کریں جو اسلامی تہذیب و تمدن میں رہے۔ اس مرحلہ پر اقبال اسلام کے ایک نہایت ہی اہم بنیادی تصور یعنی ”عقیدہ ختم نبوت کی ثقافتی قدر و قیمت کی طرف ہماری توجہ مبذول کرتے ہیں۔ (سورۃ الاحزاب : 40)
اقبال کے خیال میں نبوت کی تعریف کی ایک صورت یہ ہے کہ نبوت شعور ولایت کی وہ شکل ہے جس میں جذب کی کیفیت اپنی حدوں سے تجاوز کر کے ان قوتوں کو از سرنو ڈھونڈے جو حیات اجتماعیہ کی صورت گر ہوسکتی ہوں۔ یعنی بقول اقبال جب نبی کی ”خودی محدود خودی لا محدود سے اتصال کی حالت میں تازہ قوت حاصل کر کے زور اندروں سے ابھرتی ہے تو ماضی یا گذشتہ انسانی طور طریقوں کو مٹا کر حیات کی نئی راہیں اس پر منکشف ہوتی ہیں اور یوں وہ ایک نئی ہیئت اجتماعیہ وجود میں لاتا ہے۔
اقبال کے نزدیک قرآن مجید میں لفظ " وحی " کے معنی یہی ہیں کہ زندگی کی طرح وحی " خاصہ حیات بہترین زندگی ہے اگرچہ ارتقائے حیات یعنی زندگی کی مختلف مراحل کے مختلف دکھ درد میں اس کے کردار کی نوعیت بلکل مختلف ہوتی ہے۔ مثلاً پورے زمین کی گہرائیوں سے آزادانہ نکلتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔
حیوانوں کے اعضاء کانشو و نما بدلتے ماحول کے مطابق ہوتا ہے یا انسان اپنی ذات اور وجود کے لیے حیات کی پہنائیوں سے نور و روشنی حاصل کرتا ہے۔ بقول اقبال یہ وحی کی مختلف شکلیں ہیں یعنی وحی کے کردار کا تعین ”وحی“ کی تحصیل کرنے والی نوع حیات کی ضرورت یا نوعیت کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً جب انسان اپنے عہد طفلی میں تھا تو اس کے نفس کی توانائی نے ایسے شعور کی اطاعت قبول کی جسے اقبال شعور نبوت“ سے تعبیر کرتے ہیں۔
یعنی اس مرحلہ پر ایسے شعور کی موجودگی کافی تھی کیونکہ انسان خود کسی شے پر حکم لگانے کے قابل نہ تھا اور نہ اسے یہ سوچنے کی ضرورت تھی کہ اس کی اپنی پسند یا نا پسند کیا ہے اس کا اپنے لیے کیا راہ عمل اختیار کرنا بہتر ہوگا۔ مطلب یہ کہ ایسی باتیں پہلے ہی سے طے شدہ تھیں تا کہ انسان کو اچھائی اور برائی امر اور نہی یا معروف و منکر کے تعین میں خودی اپنے فکر یا انتخاب سے کام لینا نہ پڑے اور صرف ایک فرد کی فکر اور انتخاب سب کی رہنمائی کرے۔
مگر رفتہ رفتہ جب عقل کی آنکھ کھلی اور انسان کو خود اپنی بصیرت، فہم اور تدبر سے کام لے سکنے کے مواقع ملے تو زندگی نے اپنے مفاد کی خاطر ابتدائی منازل میں شعور کے ماورائے عقل‘ طور طریقے چھوڑ دیے۔ انسان بنیادی طور پر جذباتی اور اپنی فطری جہتوں سے مغلوب ہے ۔ صحیح راہ پر نہ چلے تو اس میں فتنوں کی تحریک ہوتی ہے۔
ہے۔ وہ اپنے آپ پر قابو پا سکتا ہے یا اپنے ماحول کی تسخیر کر سکتا ہے تو صرف عقل استقرائی کے ذریعے ہے۔ لیکن عقل استقرائی تجربے مشاہدے تحقیق اور تجسس کی مدد ہی سے حاصل ہوتی ہے اور اگر وہ اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اسے مستحکم کرنے کی خاطر حصول علم کے دیگر طریقوں پر بندش عائد کر دینی چاہیے۔
جب انسان حیات کے اوائلی مرحلوں سے گزر رہا تھا اور وہ اپنی عقل و فہم استعمال میں لانے کے بجائے جس طرح دوسرے کرتے تھے ویسے کرتا تھا تو اس دور میں بعض افراد فلسفیانہ سوچ بچار کے عظیم نظام وجود میں لانے میں کامیاب ہوئے۔ یہ نظام در اصل مجرد فکر کا نتیجہ تھے اور مجروفکر کی مدد سے یہی کیا جا سکتا تھا کہ مذہبی عقائد اور روایات سے کسی نہ کسی طرح کی وابستگی پیدا کر دی جائے۔ لیکن ایسے نظامات کی : انسان کی عملی زندگی میں کوئی اہمیت نہ تھی۔
اس نقطہ نگاہ سے یہی ظاہر ہے کہ پیغمبر اسلام صلعم کی ذات گرامی کی حیثیت پرانی اور نئی دنیا کے درمیان ایک طرح کے پل کی ہے۔ سر چشمہ وحی کے اعتبار سے آپ کا تعلق دنیائے قدیم سے ہے لیکن "وحی" کی "روح" کے حوالے سے آپ کا واسطہ دنیائے جدید سے ہے۔ یعنی آپ کی ذات گرامی کے سبب علم و حکمت کے جن نئے سرچشموں کا انکشاف ہوا وہ انسان کے مستقبل کی تاریخی ضروریات کے عین مطابق تھے۔ اقبال فرماتے ہیں کہ اسلام کا ظہور دراصل عقل استقرائی کا ظہور ہے۔
مزید برآں اسلام میں نبوت چونکہ اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی اس لیے اس کا خاتمہ ناگزیر ہو گیا۔ مطلب یہ کہ اسلام نے یہ حقیقت واضح کردی کہ انسان سہاروں پر زندگی بسر نہیں کر سکتا۔ اس کے شعور ذات (خودی) کی تکمیل اسی صورت ممکن ہے کہ وہ بجائے خود اپنے وسائل پر اعتماد کرتے ہوئے زندگی میں آگے قدم بڑھائے۔
یہی وجہ ہے کہ بقول اقبال اسلام نہ تو دینی پیشوائی کو قبول کرتا ہے اور نہ موروثی ملوکیت اس کے ہاں جائز ہے۔ اسلام کا بار بار عقل اور تجربے پر زور دینا یا عالم فطرت اور تاریخ انسانی ایسے علوم کے مطالعہ پر اصرار کرنا ایسی سب قرآنی ترغیبات اختتام نبوت کے مختلف پہلو ہیں۔ مگر اقبال یہاں واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ تصور خاتمیت سے ان کی یہ مراد ہرگز نہیں کہ حیات انسانی میں روحانی تجربہ جو اپنی نوعیت کے اعتبار سے انبیاء کی واردات باطن سے مختلف نہیں، کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا ہے۔
بقول اقبال قرآن مجید کے نزدیک آفاق وانفس دونوں علم کا ذریعہ ہیں اور دونوں سے تحصیل علم کی خاطر مدد لینی چاہیے۔ تصور خاتمیت سے یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ زندگی میں اب صرف عقل ہی انسان کی رہبر ہے اور جذبہ کے لیے اس میں کوئی جگہ نہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا نہ ہونا چاہیے۔ احوال و واردات باطن خواہ کسی بھی نوعیت کے ہوں، انہیں حقیقت تصور کرنے میں کوئی عار نہیں۔ البتہ انسان کا یہ حق ہے کہ اپنی عقل کو استعمال کرتے ہوئے ایسے تجربات پر آزادانہ تبصرہ یا رائے دے۔