فورٹ ولیم کالج کا قیام ارتقائی مراحل
پس منظر: ملاحظہ فرمائیں۔
فورٹ ولیم کالج کا قیام اور اس کی تعلیمی سرگی میں
اردو زبان کا اولین روپ کاروباری صورت میں ابھرا لیکن ادبی زبان سب سے پہلے شاعری میں نمایاں ہوئی اور یہ ابتدائی فروغ جنوبی ہند سے حاصل ہوا ۔ ادبی نثر شاعری کے مقابلے میں بعد میں ظہور ہوئی ۔ اور ارتقاء کا اولین مرکز کلکتہ یاد کیا جاتا ہے.
بقول رام بابو سکسینہ. کہتے ہیں کہ
" اردو نثر کی ابتداء فورٹ ولیم کالج کلکتہ سے ہوئی "
لیکن یہاں اختلاف کی گنجائش یہ ہے کہ دکن گجرات اور اہل دلی کے ہاں نثر کے نمونے چھوٹے چھوٹے رسالوں سے کی صورت اٹھویں صدی ہجری میں ملتے ہیں. حکیم شمس اللہ قادری نے شیخ عین الدین گنج العلم کے رسالے کو اردو کا اولین اور قدیم ترین کتاب شمار کیا ہے۔
لیکن تاحال اس رسالے پر کسی کی نظر نہیں پڑی۔ البتہ خواجہ گیسو دراز کی تصنیف " معراج العاشقین" کی اشاعت سے ان کے زمانے سے پہلے اردو نثر کے وجود کا قیاس ممکن ہو گیا ہے۔ گیسو دراز کے نواسے سید محمد عبد الله حسینی نے عبدالقادر جیلانی کے رسالہہ نشاط العشقين " کا ترجمہ کیا اور اسی طرح یہ سلسلہ آگے بڑھتا گیا لیکن اس زمانے کی بیشتر تصانیف مذہبی نوعیت کی ہیں .
محمد حسین آزاد نے "کربل کھا " جو کہ فضلی کی تصنیف ہے اسے اردو کی پہلی نثری تصنیف شمار کیا ہے۔ لیکن جدید تحقیق کے رو سے دکن کو یہ اولیت حاصل ہے ۔ اس دور میں مرزا رفیع سودا کے دیتا ہے۔ کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ اس سے پہلے کے دنیا ہے اور تذکروں کا متن فارسی میں رکھا جاتا تھا۔ تاہم سودا کے دینا چے کو اردو کا اولین دیباچہ لکھنے کا درجہ حاصل ہے.
اسی طرح ادبی نقطہ نظر سے اردو کی قدیم کتابوں میں ملا وجہی کی تصنیف " سب رس" کو بہت اہمیت حاصل ہے ملا وجہی نے ایک خیالی قصے کو ادبی شان اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور اسے پیش کیا اور رنگا رنگ مواد کی مدد سے اردو زبان کی لسانی خوبیوں کو اجاگر کر دیا.
امنی کا منہ کو لارڈ ویزلی گورنر جنرل ایسٹ انڈیا کمپنی کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کا افتاح کیا۔
اس سے پہلے کمپنی کے انگریز ملازموں کے لیے لودو کی تعلیم کا کوئی باقادہ بندو سورت نہ تھا ۔ وارن سیٹنگز گورنر جنرل اول نے دیسی کالج کے نام ایک مدرسہ جاری کیا تھا جس میں انگریز ملازم اور ہندوستانی طلباء فارسی پڑھتے تھے لیکن یہاں اریا اور کوئی زبان نہ پڑھائی جاتی تھی ۔
یہ لوگ اردو کو اپنے طور پر پڑھ لیتے تھے یا انگریز حکام رہنے ۔ ماتحتوں کے لیے اردو کی تعلیم کا انتظام کر دیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں مغلیہ سلطنت کی زبان فارسی تھی ۔ فارسی ہی میں تمام عدالتی و ملکی کاروبار انجام پاتے تھے سلطنت کے اثر سے شمالی ہند میں کثرت سے اور عام طور پر کم وبیش تمام ندوستان میں فارسی تعلیم کا رواج تھا۔ اس لیے ایسٹ انڈیا کمپنی کوبھی پہلا اور بڑا تعلق سلطنت مغلیہ ہی ہے پیدا کرنا تھا۔
اس ضرورت کے ساتھ ہی گورنر جنرل کو اس بات کا بھی احساس تھا کہ جو انگریز کمپنی میں ملازم ہو کر ۔ آتے ہیں وہ ولایت سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے نہیں آتے اور یہاں انہیں علم کی ضرورت ہے. اس لیے انہوں نے چاہا تھا کہ ہر فورٹ ولیم کالج علوم و فنون کی اعلیٰ درسگاہ ہو ۔
جس میں علمی زبانیں عربی ، فارسی و سنسکرت بھی پڑھائی جائیں اور ملکی زبانیں اردو بنگالی مربی وغیرہ بھی اور پور میں زبانیں انگریزی، لاطینی، یونانی بھی ، اور علوم و فنون کی تعلیم بھی دی جائے ۔ جن میں تاریخ عالم ، تاریخ ہند جغرافیه، اصول قانون، شرح اسلام ، دھرم شاستر وغیرہ شامل ہوں۔ لیکن کمپنی اتنے مصارف سے عاجز رہی اور قطعاً انکار کر دیا اس لیے کا بو کو صرف زبان دانی کا کالج بنانا پڑا۔
سب سے اہم کام ڈاکٹر جان گلکرسٹ کا ہے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم تھے اور 1783 میں ہندوستان آئے تھے.. ہندوستانی فو اور اور لغت کے سلسلے میں انھوں نے انہایت پیش قریات کام کیا۔ ان سب کاموں نے ہندوستانی زبانوں کو سیکھنے کے لیے راستہ ہموار کر دیا تھا لیکن انگریز تاجروں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ ان چھوٹی چھوٹی کتابوں سے کام نہیں چلے گا ۔ اب ہندوستانی کتابوں کو سیکھنے کا باقاعدہ بندوست کرنا ہوگا۔