ڈاکٹر غلام مصطفی خان نظریہ پاکستان خلاصہ

ڈاکٹر غلام مصطفی خان نظریہ پاکستان خلاصہ

ڈاکٹر غلام مصطفی خان نظریہ پاکستان خلاصہ


ابتدائی حالات: ڈاکٹر غلام مصطفی خان 23 ستمبر 1912ء کو جبل پور میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام گلاب خان تھا جو پٹھانوں کے یوسف زئی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔

ابتدائی تعلیم جبل پور سے حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لئے علی گڑھ چلے گئے اور وہاں سے فارسی، اردو اور قانون کا امتحان پاس کیا۔

عملی زندگی: ڈاکٹر صاحب سب سے پہلے امراوتی کا لج ناگ پور میں استاد مقرر ہوئے، پھر قیام پاکستان کے بعد کراچی آکر اردو کالج اور پھر سندھ یو نیورسٹی میں صدر شعبہ اردو مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ آپ ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش کی یونیورسٹیوں میں پی۔ ایچ۔ ڈی سطح پر لکھے جانے والے مقالات کے متھن بھی رہے۔

ادبی خدمات اردو تحقیق کی روایات کو مستحکم بنانے میں ڈاکٹر صاحب کا بڑا کردار ہے، آپ نے ہمیشہ تحقیقی کام کرنے والوں کی سر پرستی کی ۔ ڈاکٹر صاحب کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے۔ فارسی میں آپ کی مہارت مسلم الثبوت ہے۔

ڈاکٹر غلام مصطفی خان 25 ستمبر 2005 کو تقریبا 93 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوئے۔

اہم تصانیف: علمی نقوش، ادبی جائزے تحقیقی جائزے، تاریخ اسلاف ، تاریخ بہرام شاہ، ہمارا تلفظ ، معارف اقبال، جامع القواعد، چند فارسی شعراء و غیره۔

نظریہ پاکستان کا خلاصہ


خلاصہ مسلمان ہمیشہ سے ایک روا دار اور غیرت مند قوم ہیں۔ لیکن کفر و الحاد جب غلبہ حاصل کرنا چاہتا ہے تو مسلمان ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اکبر بادشاہ کی بے جار و اداری نے اسلام کو بہت نقصان پہنچایا اور جب پانی سر سے گزرنے لگا تو مجددالف ثانی اکبر اور جہانگیر کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور اسلامی قدروں کو نئے سرے سے فروغ دیا۔ 

شاہ جہاں اور اس کے بیٹے اور نگزیب نے مجد والف ثانی سے بہت فیض اٹھایا۔ جب مغلیہ سلطنت زوال کا شکار ہوگئی اور ٹیپو سلطان اور حیدر علی کی کوششیں بھی اپنوں کی غداری کے باعث نا کام ہو گئیں ، تو شاہ ولی اللہ، شاہ اسماعیل اور سید احمد شہید نے اسلامی اصولوں کو رائج کرنے اور ملک کو غلامی سے آزاد کرانے کی کوششیں کیں۔ مگر انگریز نے 1857ء کی جنگ کے بعد برصغیر پر مکمل قبضہ جمالیا۔

سن 1857ء کے بعد سرسید نے انگریزوں سے مفاہمانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے مسلمانوں کی اخلاقی و تہذیبی اصلاح کا بیڑا اٹھایا۔ سرسید نے مسلمانوں کو سیاست سے دور رہنے کی تلقین کی۔ اس زمانے میں مولانا محمد قاسم نے دیو بند میں ایک مدرسہ قائم کیا اور مسلمانوں کی دینی تعلیم کی طرف توجہ دی۔ 

پہلی جنگ عظیم میں ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا اور انگریزوں کی جنگ جرمنی کے ساتھ تھی۔ بر صغیر کے مسلمان ترکی کے خلیفہ کے ساتھ عقیدت رکھتے تھے۔ انگریزوں نے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ اگر وہ جنگ جیت گئے تو ترکی کوکوئی نقصان نہ پہنچائیں گے لہذا بر صغیر کے مسلمانوں نے انگریز کا ساتھ دیا۔ مگر جنگ جیتنے کے بعد انگریز نے وعدہ خلافی کی اور ترکی کے حصے بخرے کر دیئے اس وعدہ خلافی کے بعد مولانا محمد علی جو ہر اور مولانا شوکت علی نے تحریک خلافت شروع کی ۔ تحریک خلافت میں ہندوؤں کے دھو کے اور 1928ء میں نہرورپورٹ نے مسلمانوں کو الگ وطن کے قیام کے مطالبے کے لئے مجبور کر دیا۔ 

سن 1930ء میں علامہ اقبال نے الگ وطن کی تجویز پیش کی اور 1940ء میں مسلم لیگ کے اجلاس میں الگ وطن کا مطالبہ کر دیا گیا۔ مصنف بتاتے ہیں کہ دنیا میں قومیت کی تشکیل کی دو بنیاد میں ہیں۔ ایک مغربی مفکرین کی قائم کردہ اور دوسری حضرت محمد اللہ کی قائم کی ہوئی ۔ اہل مغرب خاندانی نسلی اور جغرافیائی حدود پر قومیت کی بنیاد رکھتے ہیں جب کہ مسلمانوں کی قومیت ایک نظریاتی قومیت ہے جس کی بنیاد کلمہ طیبہ ہے۔ نظریہ پاکستان کی اساس اسلام ہے۔ برصغیر کے مسلمان ایک ایسی فلاحی ریاست کا قیام چاہتے تھے جہاں وہ اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ 

قائد اعظم کی پر خلوص قیادت میں مسلمانوں نے پاکستان کا خواب سچا کر دکھایا۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم نظریہ پاکستان کی حفاظت کرتے ہوئے پاکستان کو مستحکم اور مضبوط بنا ئیں۔
مذید اشاعت ملاحظہ فرمائیں

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !