ماحولیاتی آلودگی اور اج کل کا انسان
ماحول کی آلودگی کے نتائج انتہائی خراب کن ثابت ہوتے ہیں۔
انسان اور دوسرے جان داروں کے زندہ رہنے کے لیے جو چیزیں غذا کی طرح ضروری ہیں وہ ہوا اور پانی ہیں ۔ ہوا اور پانی کو آب و ہوا بھی کہتے ہیں اور آب و ہوا سے مراد ما حول یا موسم بھی ہوتا ہے۔ شہر کے مقابلے میں دیہات یا پہاڑی مقام کی آب و ہوا یا قدرتی ماحول زیادہ اچھا ہوتا ہے اس لیے کہ وہاں سانس لینے کے لیے صاف ہوا اور پینے کے لیے صاف پانی ملتا ہے اور وہاں ایسا شور و غل بھی نہیں ہوتا جو ہمارے کانوں کو بُرا لگے یا ذہنوں پر بوجھ بن جائے ۔
گندی ہوا میں سانس لینے سے ہمارے پھیپھڑے خراب ہو جاتے ہیں جس سے دمہ، دق جیسی مہلک جان لیوا بیماریاں جنم لینا شروع کر دیتا ہے اس کے علاوہ انسانی زندگی کے لیے جو سب سے زیادہ خطرہ بنتا ہے وہ سانس کی دیگر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ پانی نہ صرف پینے کے کام آتا ہے بلکہ ہمارے کھانے پینے کی ہر چیز میں بھی پانی کی خاصی مقدار ہوتی ہے۔ اس طرح اگر ہمیں صاف پانی نہیں ملتا تو ہمارے پیٹ میں پانی اور غذا کے ساتھ وہ گندگی بھی جائے گی جو پانی میں ملی ہوئی ہو۔
اس سے طرح طرح کی بیماریاں پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ آنتیں ، جگر ، گردے وغیرہ خراب ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ جو خون ایسی آلودہ غذا سے بنے گا وہ بھی آلودگی سے محفوظ نہیں ہوگا۔ اس کی آلودگی سے کئی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کا علاج بھی دریافت ہو رہا ہے اور علاج کے طور طریقے بھی بدل رہے ہیں۔ اس کا اثر یہ ہوا ہے کہ وبائی بیماریوں پر کافی حد تک قابو پالیا گیا ہے اور اب وبائی امراض میں لوگوں کی جانیں اس طرح نہیں جاتیں جیسے پہلے جاتی تھیں۔
ناگہانی اموات پر قابو پانے سے آبادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ گنجان آبادی والے علاقوں میں تازہ ہوا اور صاف پانی کی قلت قدرتی کی بات ہے۔ ترقی کی رفتار سے ہمارے معیار زندگی پر بھی فرق پڑتا ہے اور ہماری زندگی میں طرح طرح کی نئی ضروریات جنم لینے لگتی ہیں جیسے کپڑے دھونے کی مشین ، ریفریجریٹر، بجلی کا ہر طرح کا سامان اور ٹیلی وژن وغیرہ۔ یہ سامان تیار کرنے کے لیے فیکٹریاں اور کارخانے قائم کیے جاتے ہیں۔
ملک کی صنعتی ترقی کے لیے بھاری مشینری بنانے والے بڑے بڑے کارخانے بھی وجود میں آتے ہیں۔ ان کارخانوں سے دن رات دھواں اور زہریلی گیسیں نکتی رہتی ہیں جن سے ہوا میں آلودگی شامل ہوتی ہے۔ یہ آلودہ ہوا سانس کے ساتھ ہمارے جسم کے اندر جاتی ہے اور بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔
فیکٹریوں اور کارخانوں کا کیچڑ گندے نالوں کے ذریعے سے دریاؤں میں جا کر ملتا ہے۔ یہ دریا کے اس پانی کو آلودہ کرتی ہے جو ایک طرف تو پینے کے پانی کے علموں میں جاتا ہے اور دوسری طرف کھینوں میں جاتا ہے۔ جو کھیتیاں ایسے پانی سے سیراب ہوتی ہیں ان میں بھی کچھ ایسے کیمیائی اجزا شامل ہو جاتے ہیں جو صحت کے لیے فائدہ مند ہونے کے بجائے قصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
فیکٹریاں اور کارخانے لگانے کا آغاز ہوا تو انھیں شہر کی آبادی سے دور قائم کیا جاتا تھا۔ پھر جوں جوں شہروں کی آبادی بڑھتی گئی تو وہ رخانے جو آبادی سے دور بنائے گئے تھے آبادی میں شامل ہوتے گئے اور ان کی کثیف یا گندی ہوا شہروں کے ماحول کو متاثر کرنے لگتے ہیں اس وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جس رفتار سے شہروں کی آبادی بڑھتی ہے اُسی رفتار سے آلودگی بھی بڑھتی ہے مثلاً : آبادی بڑھنے سے روز مرہ کے کام کاج پر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس سے سڑک چلنے والی گاڑیوں جیسے موٹر سائیکل ، کار، بس جیسی سواریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ گاڑیاں شہر کی سڑکوں پر دن رات دھواں اڑاتی ہوئی چلتی ہیں جس سے ماحول میں آلودگی پھیلنے لگتی ہے۔