سفارش طلب کا خلاصہ

سفارش طلب کا خلاصہ

سفارش طلب کا خلاصہ

ایک شام میرے بے تکلف دوست آغا آئے اور میرے ملازم کو چائے کا حکم دے کر مجھے راز دارانہ لہجے میں کہا کہ ایک جگہ ڈاکا ڈالنے میں ساتھ دو گے ؟ میں نے کہا، تمہیں حیا نہیں آتی۔ مجھے ڈاکو بناتے ہو ؟ آغا نے کہا، کچھ عرصے بعد آپ نے ڈاکے کا دعوت دیا تھا اور وہ آج آپ نے میری دعوت رد کی۔ جھگڑا ختم۔ میں نے پوچھا، میں نے تمہیں ڈاکے پر کیسے اکسایا بولا؟

تم نے اپنے مولوی زادے کی سفارش کر کے کسی اور کا حق چھیننا چاہا جو کہ زبردست ڈاکا ہے۔ میں نے جب سوچا تو آغا ٹھیک کہہ رہا تھا۔ مجھے بہت ندامت محسوس ہوئی۔ وہائیں اور جنگیں ختم ہو جاتی ہیں مگر سفارش کا سیلاب کبھی بھی نہیں رکھتا۔ سفارش کے جراثیم رشتہ دار اور دوست پھیلاتے ہیں۔ جب بھی کبھی لفافہ ملتا ہے جس پر اشد ضروری" اور "بصیغہ راز " جیسے الفاظ لکھے ہو تو میں سمجھ جاتا ہوں کہ کسی چا کی سفارش ہے۔ خط میں لکھا ہوتا ہے کہ "حامل رقعہ پر چینی بلیک کرنے کا مقدمہ ہے۔ مسٹر انصاری جو آپ کا ہم جماعت ہے، 

وہ تفتیشی افسر ہے۔ اُس سے اس شریف بندے کی گلو خلاصی کر دور نہ جیل میں گل سڑ جائے گا۔ ایسے چچا جان بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ ان کے جراثیم تلف کرنے کے لیے اسے DDT سے نہلانا چاہیے۔ بعض سفارش طلب بلیک میل کی تکنیک استعمال کرتے ہیں۔ گھر آکر بہت بے تکلفی دکھاتے ہیں۔ بچوں کو نام سے پکار کر گود میں لے کر پیار کرتے ہیں اور آپ سوچ رہے ہوتے ہیں کہ یہ کون ہے ؟ آپ ان کا نام اور تعارف شرم کی وجہ سے پوچھ بھی نہیں سکتے۔ ایسے میں وہ سفارش کرتے ہیں کہ فلاں ٹھیکے کا ٹینڈر کل آپ کھولیں گے ۔ مرزا صاحب میرے رشتہ دار ہے۔ قاعدے قانون کو چھوڑ کر اُس کا کام کر دینا۔ ہم دنیا دار آدمی ہے۔ قائد اعظم تھوڑے ہی ہیں۔ 

اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو چلانے کی تمام ذمہ داری صرف اللہ تعالی پر عائد ہے۔ دیانتداری فقط قائد اعظم کے لیے تھی اور ہم چوری، رشوت اور اقربا پروری کے لیے ہیں۔ ایسے سفارش طلبوں کو زبردستی گھر سے نکالنا چاہئیں۔ بعض سفارش طلب علامہ اقبال کے کلام سے کام چلاتے ہیں۔ ایک دن ایسے ہی باوقار شخصیت تشریف لائیں جنہوں نے افواج پاکستان پر "مرد مجاہد " کے نام سے کتاب لکھی تھی اور چاہتے تھے کہ میں فوجی فنڈ سے دس ہزار نے خرید کر فوج میں تقسیم کروں جس پر ڈیڑھ لاکھ کا خرچہ آتا تھا۔ کتاب کی چھپائی اور جلد سازی بھی ٹھیک نہیں تھی۔ ایک چھوٹا سا کتا بچہ تھا۔ 

میں نے اُسے کہا کہ اقبال کے عقیدت مند ہو کر سفارش کرنا اچھا کام نہیں ہے اور یہ میرے اختیار سے بھی باہر ہے۔ اس پر ناراض ہو کر علامہ اقبال کے شعر کا حوالہ دیکر چلا گیا۔ سفارش طلب سے نبٹنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وعدہ کر کے بھلا دیا جائے مگر یہ مصلحت کوشی ہے جو کہ بعض دفعہ خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ ایک دفعہ میر ا دوست لاہور میں اُستاد بھرتی ہو اگر گاؤں میں مشہور ہوا کہ پروفیسر ہو گیا ہے۔ اس کے بقول سفارشیوں کا تانتا لگ گیا۔ 

ایک صاحب منشی فاضل میں پاس ہونا چاہتا تھا۔ ہمسایہ چاہتا تھا کہ اُس کے بیٹے کے میٹرک میں تاریخ کا پرچہ خراب ہوا ہے۔ اُس کو پاس کراؤ۔ دونوں سے وعدے کر کے حالا۔ نتیجے کے بعد دونوں میرے مارنے کے درپے تھے۔ سفارش طلبوں سے نبٹنے کا طریقہ یہ ہے کہ ان کے ساتھ چوروں جیسا سلوک کیا جائے۔ سفارش کرتے ہی زور زور سے چور چلانا شروع کیا۔
مذید اشاعت ملاحظہ فرمائیں

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

#buttons=(Accept !) #days=(20)

Our website uses cookies to enhance your experience. Learn More
Accept !